Gumraah Aur Bad Mazhabon Se Bachne Ke Mutalliq Qurani Aayat Aur Ahadeese Shareefa (Urdu)
*بسم اللّٰه الرّحمٰن الرّحيم*
ہر سنّی مسلمان اس پوسٹ کو ضرور مکمّل پڑھیں۔
*اس پوسٹ میں تین آیات مقدسہ، ان آیات کی تفسیر اور کچھ احادیث کریمہ اور چند فتاوی کی عبارات وغیرہ مذکور ہیں۔*
اس موضوع پر کہ بد مذہبوں کی صحبت، وعظ اور ان کی باتوں سے بچنا چاہئے۔
_________________________________________
آیت ١ :
*اللہ تعالیٰ کا قرآن مجید میں فرمان عظیم ہے :*
*وَ اِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖؕ-وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(٦٨) ( الانعام )*
( الذّكْرٰی کے ذال کے نیچے زیر ہے )
*ترجمہ کنزالایمان :*
*اور اے سننے والے جب تو انہیں دیکھے جو ہماری آیتوں میں پڑتے ہیں تو ان سے منہ پھیرلے جب تک اور بات میں پڑیں اور جو کہیں تجھے شیطان بھلاوے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ.*
*تفسیر :*
*اِس آیتِ مبارکہ میں کافروں، بے دینوں کی صحبت میں بیٹھنے سے منع کیا گیا اور فرمایا کہ ان کے پاس نہ بیٹھو اور اگر بھول کر بیٹھ جاؤ تو یاد آنے پر اٹھ جاؤ۔*
اس آیت سے معلوم ہوا کہ بے دینوں کی جس مجلس میں دین کا احترام نہ کیا جاتا ہو مسلمان کو وہاں بیٹھنا جائز نہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ *کفار اور بے دینوں کے جلسے جن میں وہ دین کے خلاف تقریریں کرتے ہیں ، ان میں جانا، شرکت کرنا جائز نہیں۔*
*حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :*
*’’ آخری زمانہ میں جھوٹے دجال ہوں گے جو تمہارے پاس وہ احادیث لائیں گے جو نہ تم نے سنیں، نہ تمہارے باپ داداؤں نے، ان کو اپنے اور اپنے کو ان سے دور رکھو، وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں ، فتنہ میں نہ ڈال دیں۔*
(مسلم، باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء والاحتیاط فی تحمّلہا، ص۹، الحدیث:۷(۷))
البتہ علماء جو ان بد مذہبوں کا رد کرنے کیلئے جاتے ہیں وہ اِس حکم میں داخل نہیں۔
*یاد رہے کہ بد مذہبوں کی محفل میں جانا اور ان کی تقریر سننا ناجائز و حرام اور اپنے آپ کو بدمذہبی و گمراہی پر پیش کرنے والا کام ہے۔*
*ان کی تقاریر آیاتِ قرآنیہ پر مشتمل ہوں خواہ احادیثِ مبارَکہ پر، اچھی باتیں چننے کا زعم ( یعنی گمان ) رکھ کر بھی انہیں سننا ہر گز جائز نہیں۔*
*عین ممکن ( یعنی بلکل ممکن ) بلکہ اکثر طور پر واقع ہے ( یعنی اکثر طور پر ہوتا ہے ) کہ گمراہ شخص اپنی تقریر میں قرآن و حدیث کی شرح و وضاحت ( یعنی تفسیر اور کھول کر کہنے، Explanation ) کی آڑ میں ضرور کچھ باتیں اپنی بد مذہبی کی بھی ملا دیا کرتے ہیں، اور قوی خدشہ ( یعنی سخت اندیشہ ) بلکہ وقوع کا مشاہدہ ہے ( یعنی ایسا ہونا دیکھا گیا ہے ) کہ وہ باتیں تقریر سننے والے کے ذہن میں راسخ ہو کر دل میں گھر کر جاتی ہیں۔*
*یہی وجہ ہے کہ گمراہ و بے دین کی تقریر و گفتگو سننے والا عموماً خود بھی گمراہ ہو جاتا ہے۔*
*ہمارے اسلاف اپنے ایمان کے بارے میں بے حد محتاط ہوا کرتے تھے, (یعنی بہت زیادہ اس معاملے میں احتیاط فرماتے تھے) لہٰذا باوجود یہ کہ وہ عقیدے میں انتہائی مُتَصَلّب و پختہ ہوتے پھر بھی وہ کسی بدمذہب کی بات سننا ہر گز گوارا نہ فرماتے تھے* اگرچہ وہ سو بار یقین دہانی کراتا کہ میں صرف قرآن و حدیث بیان کروں گا۔
*چنانچہ اعلیٰ حضرت، امام اہلسنّت، مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس بارے میں اسلاف کا عمل نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :*
*’’سیدنا سعید بن جبیر شاگردِ عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو راستہ میں ایک بد مذہب ملا۔*
*( بد مذہب نے ) کہا : کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔*
*(سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ) فرمایا : میں سننا نہیں چاہتا۔ "*
*( بد مذہب نے ) عرض کی : ایک کلمہ۔*
*(سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ) اپنا انگوٹھا چھنگلیا ( چھوٹی انگلیوں ) کے سرے پر ( یعنی کنارے پر ) رکھ کر فرمایا : ’’وَ لَا نِصْفَ کَلِمَۃٍ‘‘ آدھا لفظ بھی نہیں۔*
*لوگوں نے عرض کی : اس کا کیا سبب ہے (؟)۔*
*(سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ) فرمایا : یہ ان میں سے ہے یعنی گمراہوں میں سے ہے۔*
*امام محمد بن سیرین شاگردِ انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس دو بد مذہب آئے۔*
*( ان بد مذہبوں نے ) عرض کی : کچھ آیاتِ کلام اللہ ( قرآن مجید کی آیات ) آپ کو سنائیں !*
*(امام محمد بن سیرین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) فرمایا : میں سننا نہیں چاہتا۔*
*( ان بد مذہبوں نے ) عرض کی : کچھ احادیثِ نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سنائیں !*
*(امام محمد بن سیرین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) فرمایا : میں سننا نہیں چاہتا۔*
ہر سنّی مسلمان اس پوسٹ کو ضرور مکمّل پڑھیں۔
*اس پوسٹ میں تین آیات مقدسہ، ان آیات کی تفسیر اور کچھ احادیث کریمہ اور چند فتاوی کی عبارات وغیرہ مذکور ہیں۔*
اس موضوع پر کہ بد مذہبوں کی صحبت، وعظ اور ان کی باتوں سے بچنا چاہئے۔
_________________________________________
آیت ١ :
*اللہ تعالیٰ کا قرآن مجید میں فرمان عظیم ہے :*
*وَ اِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖؕ-وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(٦٨) ( الانعام )*
( الذّكْرٰی کے ذال کے نیچے زیر ہے )
*ترجمہ کنزالایمان :*
*اور اے سننے والے جب تو انہیں دیکھے جو ہماری آیتوں میں پڑتے ہیں تو ان سے منہ پھیرلے جب تک اور بات میں پڑیں اور جو کہیں تجھے شیطان بھلاوے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ.*
*تفسیر :*
*اِس آیتِ مبارکہ میں کافروں، بے دینوں کی صحبت میں بیٹھنے سے منع کیا گیا اور فرمایا کہ ان کے پاس نہ بیٹھو اور اگر بھول کر بیٹھ جاؤ تو یاد آنے پر اٹھ جاؤ۔*
اس آیت سے معلوم ہوا کہ بے دینوں کی جس مجلس میں دین کا احترام نہ کیا جاتا ہو مسلمان کو وہاں بیٹھنا جائز نہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ *کفار اور بے دینوں کے جلسے جن میں وہ دین کے خلاف تقریریں کرتے ہیں ، ان میں جانا، شرکت کرنا جائز نہیں۔*
*حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :*
*’’ آخری زمانہ میں جھوٹے دجال ہوں گے جو تمہارے پاس وہ احادیث لائیں گے جو نہ تم نے سنیں، نہ تمہارے باپ داداؤں نے، ان کو اپنے اور اپنے کو ان سے دور رکھو، وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں ، فتنہ میں نہ ڈال دیں۔*
(مسلم، باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء والاحتیاط فی تحمّلہا، ص۹، الحدیث:۷(۷))
البتہ علماء جو ان بد مذہبوں کا رد کرنے کیلئے جاتے ہیں وہ اِس حکم میں داخل نہیں۔
*یاد رہے کہ بد مذہبوں کی محفل میں جانا اور ان کی تقریر سننا ناجائز و حرام اور اپنے آپ کو بدمذہبی و گمراہی پر پیش کرنے والا کام ہے۔*
*ان کی تقاریر آیاتِ قرآنیہ پر مشتمل ہوں خواہ احادیثِ مبارَکہ پر، اچھی باتیں چننے کا زعم ( یعنی گمان ) رکھ کر بھی انہیں سننا ہر گز جائز نہیں۔*
*عین ممکن ( یعنی بلکل ممکن ) بلکہ اکثر طور پر واقع ہے ( یعنی اکثر طور پر ہوتا ہے ) کہ گمراہ شخص اپنی تقریر میں قرآن و حدیث کی شرح و وضاحت ( یعنی تفسیر اور کھول کر کہنے، Explanation ) کی آڑ میں ضرور کچھ باتیں اپنی بد مذہبی کی بھی ملا دیا کرتے ہیں، اور قوی خدشہ ( یعنی سخت اندیشہ ) بلکہ وقوع کا مشاہدہ ہے ( یعنی ایسا ہونا دیکھا گیا ہے ) کہ وہ باتیں تقریر سننے والے کے ذہن میں راسخ ہو کر دل میں گھر کر جاتی ہیں۔*
*یہی وجہ ہے کہ گمراہ و بے دین کی تقریر و گفتگو سننے والا عموماً خود بھی گمراہ ہو جاتا ہے۔*
*ہمارے اسلاف اپنے ایمان کے بارے میں بے حد محتاط ہوا کرتے تھے, (یعنی بہت زیادہ اس معاملے میں احتیاط فرماتے تھے) لہٰذا باوجود یہ کہ وہ عقیدے میں انتہائی مُتَصَلّب و پختہ ہوتے پھر بھی وہ کسی بدمذہب کی بات سننا ہر گز گوارا نہ فرماتے تھے* اگرچہ وہ سو بار یقین دہانی کراتا کہ میں صرف قرآن و حدیث بیان کروں گا۔
*چنانچہ اعلیٰ حضرت، امام اہلسنّت، مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس بارے میں اسلاف کا عمل نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :*
*’’سیدنا سعید بن جبیر شاگردِ عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو راستہ میں ایک بد مذہب ملا۔*
*( بد مذہب نے ) کہا : کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔*
*(سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ) فرمایا : میں سننا نہیں چاہتا۔ "*
*( بد مذہب نے ) عرض کی : ایک کلمہ۔*
*(سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ) اپنا انگوٹھا چھنگلیا ( چھوٹی انگلیوں ) کے سرے پر ( یعنی کنارے پر ) رکھ کر فرمایا : ’’وَ لَا نِصْفَ کَلِمَۃٍ‘‘ آدھا لفظ بھی نہیں۔*
*لوگوں نے عرض کی : اس کا کیا سبب ہے (؟)۔*
*(سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ) فرمایا : یہ ان میں سے ہے یعنی گمراہوں میں سے ہے۔*
*امام محمد بن سیرین شاگردِ انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس دو بد مذہب آئے۔*
*( ان بد مذہبوں نے ) عرض کی : کچھ آیاتِ کلام اللہ ( قرآن مجید کی آیات ) آپ کو سنائیں !*
*(امام محمد بن سیرین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) فرمایا : میں سننا نہیں چاہتا۔*
*( ان بد مذہبوں نے ) عرض کی : کچھ احادیثِ نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سنائیں !*
*(امام محمد بن سیرین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) فرمایا : میں سننا نہیں چاہتا۔*
*انہوں نے ( یعنی ان بد مذہبوں نے ) اصرار کیا۔*
*(امام محمد بن سیرین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) فرمایا : تم دونوں اٹھ جاؤ یا میں اٹھا جاتا ہوں۔*
*آخر وہ ( دونوں ) خائب و خاسر چلے گئے۔*
*لوگوں نے عرض کی : اے امام! آپ کا کیا حرج تھا اگر وہ کچھ آیتیں یا حدیثیں سناتے؟*
*(امام محمد بن سیرین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) فرمایا : میں نے خوف کیا کہ وہ آیات و احادیث کے ساتھ اپنی کچھ تاویل ( یعنی اپنی طرف سے کچھ شرح ) لگائیں اور وہ میرے دل میں رہ جائے تو ہلاک ہو جاؤں۔*
*پھر ( اعلی حضرت نے ) فرمایا :*
*’’آئمہ کو تو یہ خوف اور اب عوام کو یہ جرأت ہے، وَلَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہْ۔ دیکھو! امان کی راہ وہی ہے جو تمہیں تمہارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بتائی :*
*’’اِیَّاکُمْ وَ اِیَّا ھُمْ لَا یُضِلُّوْنَکُمْ وَلَایَفْتِنُوْنَکُمْ‘‘ ان (بدمذہبوں ) سے دور رہو اور انھیں اپنے سے دور کرو، کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں، کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں۔*
*دیکھو! نجات کی راہ وہی ہے جو تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے بتائی :*
*’’فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ‘‘* (انعام: ٦٨)
*یاد آئے پر پاس نہ بیٹھ ظالموں کے۔*
*بھولے سے ان میں سے کسی کے پاس بیٹھ گئے ہو تو یاد آنے پر فوراً کھڑے ہو جاؤ۔*
(فتاویٰ رضویہ، ۱۵/۱۰٦/١٠٧ ملخصاً)
( تفسیر صراط الجنان، الانعام، تحت الآیۃ : ٦٨ )
--------------------------------------------------------------------
آیت ٢ :
*اور ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے :*
*كُتِبَ عَلَیْهِ اَنَّهٗ مَنْ تَوَلَّاهُ فَاَنَّهٗ یُضِلُّهٗ وَ یَهْدِیْهِ اِلٰى عَذَابِ السَّعِیْرِ(٤) (الحجّ)*
*ترجمہ کنزالایمان :*
*جس پر لکھ دیا گیا ہے کہ جو اس کی دوستی کرے گا تو یہ ضرور اسے گمراہ کردے گا اور اُسے عذابِ دوزخ کی راہ بتائے گا۔*
*تفسیر :*
*اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ لوحِ محفوظ میں جِنّات اور انسانوں کے ہر سرکش شیطان کے متعلق لکھ دیا گیا ہے کہ جو اس کی اطاعت اور اس سے دوستی کرےگا تو شیطان ضرور اسے گمراہ کر دے گا اور اسے جہنم کے عذاب کا راستہ بتائے گا.*
*دوسری تفسیر یہ ہے کہ لوحِ محفوظ میں اس شخص کے بارے میں لکھ دیا گیا ہے جو شیطان کی پیروی اور اس سے دوستی کرے گا تو شیطان ضرور اسے جنت سے گمراہ کر دے گا اور اسے جہنم کے عذاب کی راہ بتائے گا۔*
( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ : ٤ )
( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ : ٤، ۸/۲۰۲، ملتقطاً )
*اس آیت سے معلوم ہوا کہ بدمذہبوں سے دوستی اور تعلق نہیں رکھنا چاہئے اور نہ ہی ان کے ساتھ رشتہ داری قائم کرنی چاہئے کیونکہ یہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور اپنی چکنی چپڑی باتوں،( یعنی اپنے جھوٹی باتوں سے ) ظاہری عبادت و ریاضت اور دکھلاوے کی پرہیز گاری کے ذریعے دوسروں کو بھی گمراہ کر دیتے ہیں۔*
*صحیح مسلم شریف میں،*
*حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،* *حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :*
*’’ عنقریب میری امت کے آخر میں کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوں گے جو تم سے ایسی باتیں کریں گے جنہیں نہ تم نے سنا ہو گا اور نہ تمہارے باپ دادا نے، تو تم ان سے دور رہنا اور انہیں (خود سے) دور رکھنا۔*
( مسلم، باب النہی عن الروایۃ عن الضعفائ۔۔۔ الخ، ص۹، الحدیث: ٦(٦))
اسی کتاب کی دوسری روایت میں ہے ،
*حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :*
*’’آخری زمانے میں دَجّال اور کذّاب ظاہر ہوں گے ،وہ تمہارے پاس ایسی باتیں لے کر آئیں گے جنہیں تم اور تمہارے باپ دادا نے نہ سنا ہو گا تو تم ان سے دور رہنا اور انہیں دور رکھنا، کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کر دیں اور تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں۔*
( مسلم، باب النہی عن الروایۃ عن الضعفائ۔۔۔ الخ، ص۹، الحدیث: ۷(۷))
*بد مذہبوں سے دور رہنے اور انہیں خود سے دور رکھنے کے ساتھ ساتھ متعدد اَحادیث میں ان سے زندگی اور موت کے تمام تعلقات ختم کرنے کا حکم دیا گیا ہے،*
*چنانچہ ارشاد فرمایا کہ ان کے ساتھ کھانا نہ کھاؤ، ان کے ساتھ پانی نہ پیو، ان کے پاس نہ بیٹھو، ان سے رشتہ نہ کرو، وہ بیمار پڑیں تو پوچھنے نہ جاؤ، مر جائیں تو ان کی میت کے پاس نہ جاؤ، ان کی نمازِ جنازہ نہ پڑھو اور نہ ہی ان کے ساتھ نماز پڑھو۔*
(کنز العمال، کتاب الفضائل، الباب الثالث فی ذکر الصحابۃ وفضلہم۔۔۔الخ، الفصل الاول ، ٦/٢٤٦، الجزء الحادی عشر ، الحدیث : ۳۲۵۲۵ ، ۳۲۵۲٦ )
( تاریخ بغداد ، حرف الواو من آباء الحسینین، ٤٢٤٠-الحسین بن الولید ۔۔۔ الخ ، ۸/۱۳۹، ملتقطاً )
*اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔*
--------------------------------------------------
آیت ٣ :
*اور ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے :*
*یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا(۲۸)لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا(۲۹) ( الفرقان )*
( الذکر بعد, کے ذال کے نیچے زیر ہے )
*ترجمہ کنزالایمان :*
*وائے خرابی میری ہائے کسی طرح میں نے فلانے کو دوست نہ بنایا ہوتا بے شک اس نے مجھے بہکادیا میرے پاس آئی ہوئی نصیحت سے اور شیطان آدمی کو بے مدد چھوڑ دیتا ہے۔*
*تفسیر :*
*اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن کافر کہےگا : ’’ہائے میری بربادی! اے کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا جس نے مجھے گمراہ کر دیا۔ بیشک اس نے اللہ تعالٰی کی طرف سے میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد مجھے اس نصیحت یعنی قرآن اور ایمان سے بہکا دیا اور شیطان کی فطرت ہی یہ ہے کہ وہ انسان کو مصیبت کے وقت بے یارو مددگار چھوڑ دیتا ہے اور جب انسان پربلاو عذاب نازل ہوتا ہے تو اس وقت اس سے علیحدگی اختیار کرلیتا ہے۔*
( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۲۸-۲۹، ۳/۳۷۱، ملخصاً )
*اس سے معلوم ہو اکہ بد مذہبوں اور برے لوگوں کی صحبت اختیار کرنا، انہیں اپنا دوست بنانا اور ان سے محبت کرنا دنیا اور آخرت میں انتہائی نقصان دِہ ہے۔ اَحادیث میں بری صحبت اور دوستی سے بچنے کی بہت تاکید کی گئی ہے، چنانچہ ترغیب کے لئے یہاں اس سے متعلق دو اَحادیث ملاحظہ ہوں،*
*(1)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’برے ہم نشین سے بچو کہ تم اسی کے ساتھ پہچانے جاؤگے۔*
( ابن عساکر ، ذکر من اسمہ الحسین ، حرف الجیم فی آباء من اسمہ الحسین ، الحسین بن جعفر بن محمد ۔۔۔ الخ ، ۱٤/٤٦ )
*یعنی جیسے لوگوں کے پاس آدمی کی نشست وبَرخاست ہوتی ہے ( یعنی اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے ) لوگ اسے ویسا ہی جانتے ہیں۔*
*(2)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں :*
*فاجر سے بھائی بندی نہ کر کہ وہ اپنے فعل کو تیرے لیے مُزَیَّن کرے گا اور یہ چاہے گا کہ تو بھی اس جیسا ہوجائے اور اپنی بدترین خصلت کو اچھا کرکے دکھائے گا، تیرے پاس اس کا آنا جانا عیب اور ننگ ہے اور احمق سے بھی بھائی چارہ نہ کر کہ وہ تیرے لئے خود کو مشقت میں ڈال دے گا اور تجھے کچھ نفع نہیں پہنچائے گا اور کبھی یہ ہوگا کہ تجھے نفع پہنچانا چاہے گا مگر ہوگا یہ کہ نقصان پہنچادے گا، اس کی خاموشی بولنے سے بہتر ہے، اس کی دوری نزدیکی سے بہتر ہے اور موت زندگی سے بہتر ہے اور جھوٹے آدمی سے بھی بھائی چارہ نہ کر کہ اس کے ساتھ میل جول تجھے نفع نہ دے گی، وہ تیری بات دوسروں تک پہنچائے گا اور دوسروں کی تیرے پاس لائے گا اور اگر تو سچ بولے گا جب بھی وہ سچ نہیں بولے گا۔*
( ابن عساکر، حرف الطاء فی آباء من اسمہ علی، علی بن ابی طالب۔۔۔ الخ، ٤٢/۵۱٦ )
*فی زمانہ بعض نادان لوگ بد مذہبوں سے تعلقات قائم کرتے اور یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ہمیں اپنے مسلک سے کوئی ہلا نہیں سکتا، ہم بہت ہی مضبوط ہیں ،ہم نے ان سے تعلق اس لئے قائم رکھا ہوا ہے تاکہ انہیں اپنے جیسا بنالیں، یونہی بعض نادان تسکینِ نفس کی خاطر بد مذہب عورتوں سے نکاح کرتے اور یوں کہتے ہیں کہ ہم نے ان سے نکاح اس لئے کیا ہے تاکہ انہیں بھی اپنے رنگ میں رنگ لیں ،اسی طرح کچھ نادان گھرانے ایسے بھی ہیں جو صرف دنیا کی اچھی تعلیم کی خاطر اپنے نونہالوں ( یعنی اپنے بچوں ) کو بد مذہب استادوں کے سپرد کردیتے ہیں اور بالآخر یہی بچے بڑے ہو کر بد مذہبی اختیار کر جاتے ہیں، ایسے لوگوں کو چاہئے کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے اس کلام سے عبرت حاصل کریں،*
*چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْ فرماتے ہیں :*
*غیر مذہب والیوں (یا والوں ) کی صحبت آگ ہے، ذی علم، عاقل، بالغ مردوں کے مذہب (بھی) اس میں بگڑ گئے ہیں۔*
*عمران بن حطان رقاشی کا قصہ مشہور ہے، یہ تابعین کے زمانہ میں ایک بڑا محدث تھا، خارجی مذہب کی عورت (سے شادی کرکے اس) کی صحبت میں (رہ کر) مَعَاذَاللہ خود خارجی ہو گیا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ (اس سے شادی کر کے) اسے سنّی کرنا چاہتا ہے۔*
*جب صحبت کی یہ حالت ( کہ اتنا بڑا محدث گمراہ ہو گیا ) تو ( بدمذہب کو ) استاد بنانا کس درجہ بدتر ہے کہ استاد کا اثر بہت عظیم اور نہایت جلد ہوتا ہے، تو غیر مذہب عورت (یا مرد) کی سپردگی یا شاگردی میں اپنے بچوں کو وہی دے گا جو آپ ( یعنی خودہی ) دین سے واسطہ نہیں رکھتا اور اپنے بچوں کے بددین ہو جانے کی پرواہ نہیں رکھتا۔*
( فتاویٰ رضویہ،علم وتعلیم، ۲۳/٦٩٢ )
*اللہ تعالٰی ہمیں بدمذہبوں اور برے لوگوں سے دوستی رکھنے اور ان کی صحبت اختیار کرنے سے محفوظ فرمائے اور نیک و پرہیز گار لوگوں سے میل جول رکھنے اور ان کی صحبت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔*
*یہاں ایک مسئلہ یاد رکھیں کہ بے دین اور بدمذہب کی دوستی اور اس کے ساتھ صحبت و اختلاط اور الفت و احترام ممنوع ہے۔*
( تفسير صراط الجنان، الفرقان، تحت الآية : ٢٨-٢٩ )
_________________________________________
Comments
Post a Comment