Yahya Janab Ko Jawab ( Urdu )
"یحیی
انصاری صاحب کے دعوے!"
١)
پہلا مرحلہ قرآن پاک کی آیت کی تفسیر میں :
اللہ
تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
وَ ابْتَلُوا الْیَتٰمٰى حَتّٰۤى اِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ
( سورۃ النساء : 6 )
ترجمہ
کنز الایمان : اور یتیموں کو آزماتے رہو یہاں تک کہ جب وہ نکاح کے قابل ہوں۔
اس
آیت کی تفسیر کتب تفاسیر سے بیان کرنے کے بجائے یحییٰ انصاری جناب نے اپنی رائے سے
تفسیر شروع کر دی!، اور اس آیت سے استدلال کر کے نکاح کے لئے بالغ ہونا شرط قرار دے
گیے۔
جبکہ
اس آیت کی تفسیر میں مفتی احمد یار نعیمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : نکاح عقد یعنی شادی
کو کہتے ہیں، نکاح تک پہنچنے ( اور نکاح کے قابل ہونے ) سے مراد ان کا بالغ ہونا ہے،
کیونکہ نکاح کی ضرورت لڑکے لڑکی کو بالغ ہونے کے بعد ہوتی ہے، اگرچہ نکاح نابالغی میں
بھی ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے۔
(
تفسیر نعیمی، ج ٤، ص ٤٧٩، مکتبہ اسلامیہ، اردو بازار، لاہور۔ )
بالغ
لڑکا لڑکی اپنا نکاح خود کرسکتے ہیں، اجازتِ ولی کے محتاج نہیں، جیسا کہ "بَلَغُوا
النِّكَاحَ" سے معلوم ہوا، کیونکہ اس کے معنی ایک یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ جب وہ
خود نکاح کرنے کی عمر کو پہنچ جائیں۔
(
تفسیر نعیمی، ج ٤، ص ٤٨٢۔ )
اور
یحیی انصاری جیسے جدید مفسرین کے اس پر اعتراض کا جواب یوں دیتے ہیں :
اعتراض
: اس آیت سے معلوم ہوا کہ بلوغ سے پہلے نکاح جائز نہیں، بچپن کے نکاح حرام ہیں، کیونکہ
ارشاد ہوا "اِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ" جب وہ یتیم نکاح کے لائق ہوجائیں
اور ان کا نکاح جائز ہوجائے، معلوم ہوا کہ بلوغ سے پہلے نہ وہ نکاح کے لائق تھے نہ
ان کا نکاح جائز تھا۔
جواب
: یہ غلط ہے، یہاں نکاح کا جواز و لیاقت مراد نہیں، بلکہ یا تو نکاح کی ضرورت مراد
ہے، یا نکاح کا اختیار، یعنی جب وہ نکاح کی ضرورت کو پہنچ جائیں کہ انہیں نکاح کی ضرورت
محسوس ہونے لگے یا جب وہ اس قابل ہو جائیں کہ وہ اپنا نکاح خود کرلیں بغیر ولی کی اجازت
کے، یہ دونوں باتیں بلوغ کے بعد ہی ہوتی ہیں، تمہاری تفسیر کی بناء پر یہ آیتِ کریمہ
دوسری آیتوں کے بھی خلاف ہوگی اور احادیث کے بھی۔ رب تعالی فرماتا ہے :
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ
ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ
( سورۃ الطلاق : ٤ )
(
ترجمہ کنز الایمان : اور تمہاری عورتوں میں
جنھیں حیض کی امید نہ رہی اگر تمہیں کچھ شک ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی
جنہیں ابھی حیض نہ آیا)
یعنی
وہ طلاق والی عورتیں جو بوجہ بڑھاپے کے حیض سے مایوس ہوچکیں، اور وہ جنہیں بوجہ بچپن
کے ابھی حیض آیا نہیں، ان دونوں کی عدتِ طلاق تین مہینہ ہے، اگر نا بالغہ کا نکاح درست
نہ ہوتا تو انہیں طلاق کیسی ؟ نیز نبی کریم ﷺ
کا نکاح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے ان کی سات سال کی عمر شریف میں ہوا۔
(
تفسیر نعیمی، ج ٤، ص ٤٨٣۔ )
آخر
یحیی انصاری جناب کرنا کیا چاہتے ہیں ؟ باتیں تو بڑی بڑی کردیں مگر حوالہ کسی کا نہیں!،
اور کی بھی ایسی باتیں جن کا حقائق سے کچھ لینا دینا ہی نہیں!۔
اس
آیت کی تفسیر میں اور بھی حوالے لائے جاسکتے ہیں، مگر جو حق قبول کرنا چاہے تو اس
کے لیے مفتی احمد یار خان نعیمی اشرفی علیہ الرحمہ کی بات ہی کافی ہے!۔
_________________
٢)
دوسرا مرحلہ حدیث کے متلعق :
حضور
اقدس ﷺ سے نکاح
کے وقت سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی عمر شریف کے متعلق بحث کرتے ہوئے، ٧ سال
والی روایات کو راوی کی غلطی پر محمول کرکے جناب یحیی انصاری صاحب نے صاف رد کر دیا!،
اور اس عمر میں نکاح کو حکمِ قرآنی کے خلاف قرار دے دیا!، اور وہی سورۂ نساء کی آیت
٦ پیش کی، جس کا ہم جواب ذکر کر چکے۔
پہلے
یہ بات جان لینی چاہیے کہ یہ بات کہ نکاح کے وقت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا
کی عمر ٦/٧ سال تھی 1) بخاری، 2) مسلم، 3) ابو داود، 4) ابن ماجہ، 5) مسند امام احمد
اور 6) مسند دارمی وغیرہ کتبِ متعمدہ میں متعدد اسانید سے مروی ہے!، ساری روایات ذکر
کرنا تو مشکل ہے، البتہ ان میں کچھ احادیث مع متون و اسانید ہم یہاں ڈال دیتے ہیں۔
1)
بخاری :
١-حَدَّثَنِي فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَاءِ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ
بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
قَالَتْ:
تَزَوَّجَنِي النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وأنا بنت ست سنين، فقدمنا
المدينة، فنزلنا في بني الحارث بن خزرج، فوعكت فتمزق شعري فوفى جميمة، فأتتني أمي
أم رومان، وإني لفي أرجوحة، ومعي صواحب لي، فصرخت بي فأتيتها، لا أدري ما تريد بي
فأخذت بيدي حتى أوقفتني على باب الدار، وإني لأنهج حتى سكن بعض نفسي، ثم أخذت شيئا
من ماء فمسحت به وجهي ورأسي، ثم أدخلتني الدَّارَ، فَإِذَا نِسْوَةٌ مِنْ
الْأَنْصَارِ فِي الْبَيْتِ، فَقُلْنَ: عَلَى الْخَيْرِ وَالْبَرَكَةِ، وَعَلَى
خَيْرِ طَائِرٍ، فأسلمتني إليهن، فأصلحن من شأني، فَلَمْ يَرُعْنِي إِلَّا رَسُولُ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضحى، فأسلمتني إليه، وأنا يومئذ بنت
تسع سنين.
(
صحیح بخاری، کتاب المناقب، مناقب الانصار، باب : ٤٤، ص ٩٥٤، حدیث : ٣٨٩٤، دار ابن کثیر،
بیروت۔ )
ترجمہ
: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان فرماتی ہیں کہ : نبی ﷺ
نے مجھ سے نکاح کیا، اس وقت میری عمر چھ سال تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ان خواتین نے مجھے رسول اللہ
ﷺ کے سپرد
کردیا اور اس وقت میری عمر نو سال تھی۔
(
ترجمہ مختصر ذکر کیا گیا )
(
از : علامہ سعیدی، نعمۃ الباری : ٧/١٥٣۔ )
٢-حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ،
عَنْ هشام، عن أبيه قال:
توفيت خديجة قبل مخرج النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
إِلَى الْمَدِينَةِ بثلاث سنين، فلبث سنتين أو قريبا من ذلك، ونكح عائشة، وهي بنت
ست سنين، ثم بنى بها وهي بنت تسع سنين.
(
صحیح بخاری، کتاب المناقب، مناقب الانصار، باب : ٤٤، ص ٩٥٤، حدیث : ٣٨٩٦۔ )
ترجمہ
: ( عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ) بیان کرتے ہیں کہ : نبی ﷺ
کے مدینہ جانے سے تین سال پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی وفات ہوگئی پس آپ
دو سال یا اس کے قریب ٹھہرے رہے، اور آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح
کیا، اس وقت ان کی عمر چھ سال تھی، پھر جب ان کی رخصتی ہوئی تو اس وقت ان کی عمر نو
سال تھی۔
(
ن ب : ٧/١٥٤۔ )
(
اس کی توجیہ علامہ سعیدی نے یہ بیان کی کہ : حضور ﷺ
نے ہجرت کے ایک سال پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح کیا، اس وقت آپ کی
عمر چھ سال تھی، پھر ہجرت کے دو سال بعد ان کی رخصتی ہوئی، اس وقت ان کی عمر نو سال
تھی۔ )
٣-حدثنا محمد بن يوسف: حدثنا سفيان، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة رضي
الله عنها:
أن النبي صلى الله عليه وسلم تَزَوَّجَهَا وَهِيَ بِنْتُ سِتِّ
سِنِينَ، وَأُدْخِلَتْ عَلَيْهِ وهي بنت تسع، ومكثت عنده تسعا.
(
صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب : ٣٨، ص ١٣٠٩، حدیث : ٥١٣٣۔ )
ترجمہ
: از حضرتِ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ( بیان فرماتی ہیں ) کہ : بے شک نبی ﷺ
نے ان سے اس وقت نکاح کیا جب ان کی عمر چھ سال تھی اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا
آپ کے پاس لائی گئیں جس وقت ان کی عمر نو سال تھی اور وہ آپ کے پاس نو سال رہیں۔
(
ن ب : ٩/٥٥٥۔ )
٤-حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ هشام بن
عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
تَزَوَّجَهَا وَهِيَ بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ، وبنى بها وهي بنت تسع سنين.
وقال هِشَامٌ: وَأُنْبِئْتُ أَنَّهَا كَانَتْ عِنْدَهُ تِسْعَ سِنِينَ.
(
صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب : ٣٩، ص ١٣٠٩، حدیث : ٥١٣٤۔ )
ترجمہ
: از حضرتِ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ( بیان فرماتی ہیں ) کہ : بے شک نبی ﷺ
نے ان سے اس وقت نکاح کیا جب ان کی عمر چھ سال تھی اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا
آپ کے پاس لائی گئیں جس وقت ان کی عمر نو سال تھی۔ اور ہشام نے کہا : اور مجھے بتایا
کیا کہ وہ آپ کے پاس نو سال رہیں۔
(
ن ب : ٩/٥٥٧۔ )
٥-حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ بْنُ عُقْبَةَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ
هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ:
تَزَوَّجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عائشة وهي ابنة ست سنين،
وبنى بها وهي ابنة تسع، ومكثت عنده تسعا.
(
صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب : ٥٩، ص ١٣١٥، حدیث : ٥١٥٨۔ )
(
اس میں بھی وہی ہے جو پچھلی روایت میں بیان ہوا )
اس
بات کی صراحت پانچ جگہ بخاری میں موجود ہے، پہلی تیسری چوتھی روایات خود عائشہ صدیقہ
رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے، دوسری اور پانچوی حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالی
عنہ سے مروی ہے۔
2)
مسلم :
١-حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ. حَدَّثَنَا أبو
أسامة. ح وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة. قَالَ: وَجَدْتُ فِي كِتَابِي عَنْ أَبِي
أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ. قالت:
تَزَوَّجَنِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
لِسِتَّ سِنِينَ. وَبَنَى بِي وَأَنَا بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ.
(
صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب : ١٠، ص ٦٦٣، حدیث : ١٤٢٢ ( ٣٣٦٨ )، دار الفکر، بیروت۔
)
ترجمہ
: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ : رسول اللہ ﷺ
نے مجھ سے اس وقت نکاح کیا جب میری عمر چھ سال تھی اور میری رخصتی اس وقت ہوئی جب میری
عمر نو سال تھی۔ ( مختصرا ترجمہ از : علامہ سعیدی، مسلم مترجم: ٢/٢٠٨۔ )
٢-وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى. أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ
عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ. ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ (وَاللَّفْظُ لَهُ).
حَدَّثَنَا عَبْدَةُ (هُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ) عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ
عَائِشَةَ، قَالَت: تَزَوَّجَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
وَأَنَا بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ. وَبَنَى بِي وَأَنَا بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ.
(
صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب : ١٠، ص ٦٦٣، حدیث : ١٤٢٢م¹ ( ٣٣٦٩ )۔ )
ترجمہ
: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ : رسول اللہ ﷺ
نے مجھ سے اس وقت نکاح کیا جب میری عمر چھ سال تھی اور میری رخصتی اس وقت ہوئی جب میری
عمر نو سال تھی۔ ( م م : ٢/٢٠٩۔ )
٣-وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ. أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ.
أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عائشة؛ أن النبي صلى
الله عليه وسلم تَزَوَّجَهَا وَهِيَ بِنْتُ سَبْعِ سِنِينَ. وَزُفَّتْ إِلَيْهِ
وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ. وَلُعَبُهَا مَعَهَا. وَمَاتَ عنها وهي بنت ثمان
عشرة.
(
صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب : ١٠، ص ٦٦٤، حدیث : ١٤٢٢م² ( ٣٣٧٠ )۔ )
ترجمہ
: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ : رسول اللہ ﷺ
نے مجھ سے اس وقت نکاح کیا جب میری عمر سات سال تھی اور میری رخصتی اس وقت ہوئی جب
میری عمر نو سال تھی در آں حالیکہ میری گڑیاں بھی میرے ساتھ تھیں اور جب رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اس وقت میری عمر اٹھارہ سال تھی۔ ( م م : ٢/٢٠٩۔
)( یعنی چھ سال کی ہو کر ساتویں سال میں داخل ہوچکی تھیں لہذا یہ روایت ان احادیث کے
خلاف نہیں جن میں آپ کی عمر اس وقت چھ سال مذکور ہے۔ مرآۃ المناجیح : ٥/٢٨۔ )
٤-وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى وَإسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَأَبُو
بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُو كُرَيْبٍ (قال يحيى وإسحاق: أخبرنا. وقال
الآخران: حدثنا أبو معاوية) عن الأعمش، عن إبراهيم، عن الْأَسْوَدِ، عَنْ
عَائِشَةَ. قَالَت: تَزَوَّجَهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ وَهِيَ بِنْتُ سِتٍّ. وَبَنَى بِهَا وَهِيَ بِنْتُ تِسْعٍ. وَمَاتَ
عَنْهَا وَهِيَ بِنْتُ ثَمَانَ عَشْرَةَ.
(
صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب : ١٠، ص ٦٦٤، حدیث : ١٤٢٢م³ ( ٣٣٧١ )۔ )
ترجمہ
: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ : جب رسول اللہ ﷺ
نے مجھ سے نکاح کیا اس وقت میری عمر چھ سال تھی اور نو سال کی عمر میں میری رخصتی ہوئی
اور جب آپ کا وصال ہوا تو میری عمر اٹھارہ برس کی تھی۔ ( م م : ٢/٢٠٩۔ )
مسلم
کی یہ چاروں روایات سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ہی سے مروی ہے۔ اب بتائے کہ کس
راوی سے غلطی ہوئی، اگر کہا جائے کہ ھشام بن عروہ سے غلطی ہوئی کہ بخاری کی ساری روایات
میں وہ مشترک ہے، تو مسلم کی تیسری روایت کی سند ذرا آنکھیں کھول کر دیکھیں کہ اس میں
ان کا ذکر ہے ہی نہیں، وہ روایت امام زہری نے حضرت عروہ سے روایت کیا، اب کہیں کہ حضرت
عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ سب میں ہے ولہذا غلطی انہی سے ہوئی تو مسلم کی چوتھی
روایت ذرا انکھیں پھاڑ کر دیکھیں کہ اس کی سند میں ان کا نام ہی نہیں! مزید سنن نسائی
اور ابن ماجہ کی خصوصا وہ روایات دیکھ لیں جو حضرت عروہ سے نہیں بلکہ اوروں سے مروی
ہے :
3)
نسائی :
١-أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْثَرٌ، عَنْ مُطَرِّفٍ،
عَنْ أَبِي إِسْحَقَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ:
«تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِتِسْعِ سِنِينَ
وَصَحِبْتُهُ تِسْعًا»
(
سنن نسائی، کتاب النکاح، باب : ٢٩، ص ٧٧٢، حدیث : ٣٢٥٧، الرسالہ۔ )
ترجمہ
: سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں : نبی اکرم ﷺ
نے جب میرے ساتھ شادی کی تو میں نو سال کی تھی، اور میں نو سال آپ کے ساتھ رہی۔
(
ترجمہ از : مولانا لیاقت علی رضوی، شرح نسائی : ٤/٢٦٤۔ )
٢-أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، وَأَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ،
قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ
الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، «تَزَوَّجَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ بِنْتُ تِسْعٍ، وَمَاتَ عَنْهَا وَهِيَ بِنْتُ
ثَمَانِيَ عَشْرَةَ»
(
سنن نسائی، کتاب النکاح، باب : ٢٩، ص ٧٧٢، حدیث : ٣٢٥٨، الرسالہ۔ )
ترجمہ
: سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں : جب نبی اکرم ﷺ
نے ان کے ساتھ شادی کی تو اس وقت وہ نو سال کی تھی، اور جب آپ ﷺ
کا وصال ہوا تو وہ اس وقت اٹھارہ سال کی تھیں۔
(
ش ن : ٤/٢٦٥۔ )
(
اس میں شادی کے وقت عمر ٩ بیان کیا گیا ہے، اگر باقی روایات کو سامنے رکھا جائے تو
واضح ہے کہ یہاں بات رخصتی کی ہو رہی ہے، واللہ اعلم۔ )
4)
ابن ماجہ :
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ،
حَدّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: تَزَوَّجَ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَائِشَةَ وَهِيَ بِنْتُ سَبْعٍ، وَبَنَى بِهَا وَهِيَ
بِنْتُ تِسْعٍ، وَتُوُفِّيَ عَنْهَا وَهِيَ بِنْتُ ثَمَانِي عَشْرَةَ (١).
(
سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب : ١٣، ص : ٣٢٧، حدیث : ١٨٧٧، مکتبۃ المعارف، ریاض۔
)
ترجمہ
: عبد اللہ نے فرمایا کہ : رسول اللہ ﷺ
نے جب عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے شادی کی تو ان کی عمر سات سال تھی، جب رخصتی ہوئی
تو نو سال اور جب حضور ﷺ
کی وفات ہوئی تو ان کی عمر اٹھارہ سال تھی۔
(
ترجمہ از : علامہ اختر شاہجہانپوری، ابن ماجہ مترجم : ١/٥٢٧۔ )
ان
سب روایات سے یہ بات واضح ہوجاتی کہ راوی کی غلطی کا دعوی بے اصل ہے، ہم نے اختصار
سے کام لیا اگر مزید تلاش کی جائے تو صرف اس مضمون کی روایات اور اس مسئلہ میں جواز
کے اقوال پر مشتمل ایک رسالہ جمع ہوجاوے، کہ سیرت کی کتابوں کے بھی کئی حوالے مل سکتے
ہیں، اور پھر فقہاء کرام نے اپنی کتابوں میں کس مسئلہ پر قلم نہ اٹھایا ؟۔
علاوہ
ازیں عقلا بھی یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ اگر بوقتِ رخصت عمر شریف ١٧ سال تھی تو گڑیوں
سے کھیلنے کی بات کیوں ہوتی ؟ مسلم کی صرف تیسری روایت ہی نہیں اس پر اور بھی روایات
کتب احادیث میں موجود ہے، مثلا ایک روایت ابو داود میں ہے :
حضرت
عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ ﷺ
غزوہ تبوک یا خیبر سے تشریف لائے، ام المومنین کے طاقچے ( طاق ) پر پردہ پڑا ہوا تھا،
ہوا چلی تو اس سے پردہ اٹھ گیا اور حضرت عائشہ کی گڑیاں دکھائی دینے لگیں، آپ نے فرمایا
: عائشہ یہ کیا ہے ؟ عرض کیا : یہ میری بچیاں ہیں، آپ نے ان کے درمیان ایک گھوڑا دیکھا
جس کے کپڑے کے دو پر تھے، فرمایا : ہم ان کے درمیان یہ کیا دیکھ رہے ہیں ؟ عرض کیا
: یہ گھوڑا ہے، فرمایا : گھوڑے کے دو پر ؟ عرض کیا : آپ نے نہیں سنا کہ حضرت سلیمان
علیہ السلام کے گھوڑوں کے پر تھے، فرماتی ہیں : آپ ہنسے یہاں تک کہ میں نے آپ کے اندرونی
دانت دیکھے۔
(
سنن ابو داود، کتاب الادب، باب : ٦٢، ص : ٨٩٢، حدیث : ٤٩٣٢، مکتبۃ المعارف۔ )
(
مشکوۃ المصابیح، حدیث : ٣٢٦٥۔ )( ترجمہ از : اشعۃ اللمعات مترجم : ٤/٣٧٩۔ )
اس
کے تحت مفتی صاحب فرماتے ہیں :
اگرچہ
اس وقت آپ بالغہ تھیں، مگر عمر یقینا کچی تھی اسی لیے گڑیاں بناتی اور ان سے کھیلتی
تھیں۔( مرآۃ المناجیح، ج ٥، ص ١١٤۔)
__________________
٣)
تیسرا مرحلہ کتبِ فقہ سے استدلال :
یہ
بات کون نہیں جانتا کہ قرآن و حدیث میں بیان کردہ مسائل اخذ کرنے میں ائمہ و فقہاء
نے اپنی زندگیاں صرف کر دیں، اس مسئلہ کو ایسے پیش کیا جارہا ہے جیسے آج تک کسی کو
اس مسئلہ پر کلام کرنے کا موقع ہی نہیں ملا! جبکہ یہ مسئلہ فقہ سے متلعق ہے اور دیانت
دار وہی ہوگا جو مسائلِ فقہیہ میں فقہاء کی طرف رجوع کریں، نہ کہ اپنی اجتہاد کا ڈنکا
بجانے کے لیے خود مفسر و مجتہد بن جائے، اور نئے نئے مسائل چھیڑ کر لوگوں کو پریشان
کریں!
ہمارے
زمانے میں چونکہ اعلی حضرت علیہ الرحمۃ کسی کو پرکھنے کے لیے معیار ہے تو انہی کے فرامین
پر اکتفاء کرنا چاہتا ہوں :
1)
نا بالغہ کی نکاح کے متلعق سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : لڑکی بالغہ ہے
تو اس کا اپنا ایجاب و قبول ہونا چاہیے اگرچہ بواسطہ وکیل۔ اور نابالغہ ہے تو اس کے
والی کا۔
(
فتاوی رضویہ، ج ١١، ص ٢٣٦-٢٣٧۔ )
ایک
مقام پر سوال ہوا :
کیا
نابالغ لڑکی برضا مندی خود اور خلافِ مرضی ولی جائز کے اپنا نکاح کرسکتی ہے یا نہیں
؟
2)
فرماتے ہیں : ہرگز نہیں، ہاں ولی کے اذن سے کرسکتی ہے، جبکہ سمجھ وال ہو یا بطور خود
کرے اور ولی بعد اطلاع اسے جائز کردے تو جائز ہوگا، رد کرے گا تو باطل ہوجائے گا۔ در
مختار میں ہے : نابالغ کے صحتِ نکاح کے لیے ولی شرط ہے۔
(
فتاوی رضویہ، ج ١١، ص ٢٨٠۔ )
ایک
اور مقام پر سوال ہوا :
لڑکی
کی کتنی عمر تک نکاح ناجائز ہوتا ہے اور کتنی عمر ہو تو جائز ہوتا ہے ؟
3)
جواب : نکاح کسی عمر میں ناجائز نہیں، اگر اسی وقت کے پیدا ہوئے بچے کا نکاح اس کا
ولی کردے گا نکاح ہوجائے گا، ہاں پیٹ کے بچے کا نکاح نہیں ہوسکتا۔
(
فتاوی رضویہ، ج ١١، ص ٢٦٢۔ )
اور
یہ بات تو معلوم و مشہور ہی ہے کہ :
لڑکی
کم از کم نو برس میں اور زیادہ سے زیادہ پندرہ برس کی عمر میں بالغہ ہوتی ہے۔
(
فتاوی رضویہ، ج ١١، ص ٢٧٦۔ )
ان
عبارات سے احناف کا موقف واضح ہوجاتا ہے کہ نابالغہ کا نکاح ہوسکتا ہے، چودھویں صدی
کا ایک بندہ آج یہ دعوی قرآن کریم کی آیت کا سہارا لیکر کر رہا ہے کہ یہ درست نہیں،
جیسے آج تک کسی نے قرآن پڑھا ہی نہیں، بقول مولوی صاحب کے سورۂ بقرہ کی آیت میں غور
کی حاجت ہے کہ زوجین کو لباس فرمایا گیا، عجیب
منطق ہے! آپ اپنے گھر کے اصولوں کے مطابق غور کریں گے، یا تفسیر کے اصول کی روشنی میں
غور کریں گے ؟ ایسا لگتا ہے کہ ان جناب نے کوئی نیا فتنہ ہی کھڑا کرنا ہے، خدا بچائے!۔
کسی
اعتراض کا جواب یوں دینا کہاں کی دانشمندی ہے کہ حقیقت کو ہی جھوٹ و افسانہ اور خود
قرآن کے خلاف کہہ دیا جائے ؟ ایسے ہی عجیب و غریب دعوے کرنے والوں کا رد کرتے ہوئے
مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ مسلم شریف کی تیسری روایت کی تشریح میں فرماتے
ہیں :
بہر
حال آپ رضی اللہ تعالی عنہا اس وقت نابالغہ تھیں، معلوم ہوا کہ نابالغہ لڑکی کا نکاح
ولی کرسکتا ہے، نکاح کے لیے بلوغ شرط نہیں۔
آج
بعض منکرینِ حدیث نابالغہ لڑکی کے نکاح کا انکار کرتے ہیں ان کا یہ انکاذ صریحی آیتِ
قرآنی کے خلاف ہے، یہاں ( صاحبِ ) مرقات نے فرمایا کہ : حضرت عائشہ صدیقہ کا نکاح چھ
سال کی عمر میں حدیث متواتر سے ثابت ہے، حضرت قدامہ ابن مظعون نے زبیر کی بیٹی کا نکاح
تمام صحابہ کی موجودگی میں اسی دن کیا جس دن وہ پیدا ہوئی، نابالغ بچوں کے نکاح کے
جواز پر تمام امت متفق ہے۔
(
مرآۃ المناجیح، ج ٥، ص ٢٨، زیر حدیث : ٣١٢٩۔ )
جن
جن محدثین کی روایات ہم نے بیان کیں، سب نے اس کے جواز پر استدلال کرتے ہوئے ابواب
قائم کیے اور اس کے تحت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے حوالے سے روایات بیان
کیے، کیا اتنے بڑے محدثین کو معلوم نہ ہوا کہ حدیث ہی غلط ہے ؟؟ اس بات کا انکار یا
تو جہالت ہے یا ہٹ دھرمی، بلکہ متواتر حدیث کا انکار کافی سخت بات ہے! اور مفتی صاحب
مذکور نے تو آخری کیل ہی ٹھونک دیں "اس پر تمام امت کا اتفاق ہے"، اور اختلاف
صرف یحیی جناب کو ہے۔
اگر
یہی راوی کی غلطی والا کھیل کھیلنا ہے تو کل یہی ہمارے خلاف بھی استعمال ہوگا، جن جن
عقائد کا تعلق اہلسنت سے ہے، یا جن پر ہمارے معمولات کا دار و مدار ہے، وہاں بھی کوئی
کہہ دے گا کہ جناب راوی کی غلطی ہے، تراویح کی ہی مثال لے چلے کہ ٢٠ کو غلطی قرار دے
کر، آٹھ کی روایات کو قابل ترجیح بتا دے گا، پھر اس وقت یحیی صاحب کو ہر گز مخالفت
نہ چاہیے، کیونکہ جب آپ یہ دعوی صحیحین کی روایات کو ہی مسترد کرنے کے لیے کرسکتے ہیں
تو پھر باقی کتابوں کے متعلق ایسی باتوں کو نظر انداز ہی کر دینا چاہیے، جبکہ جناب
ایسا نہیں کر پائیں گے، یہ ایک انتہائی خطرناک دعوی ہے، جس کا سد باب لازم ہے وگرنہ
دین کے بے شمار احکامات معطل ہوجاوے!!!۔
___________________
For PdF : https://t.me/kutublinks/9
Comments
Post a Comment